ڈالرز کمانے کا ایک اور موقع … نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے پاکستان کو پتھر کے زمانے میں پہنچانے کی دھمکی دے دی تو اس وقت بدقسمتی سے ملک فوج کے ہاتھ میں تھی جو کہ تاریخ گواہ ہے کہ اسی فوج نے کسی بھی میدان میں وردی اور اسلحہ کی لاج نہیں رکھی بلکہ ہمیشہ بزدلی کا مظاہرہ کیا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ان کی عیاشی اور ظلم وبربریت ہے .. مجھے اچھی طرح یاد ہے جب نہ ڈرنے والا مشرف قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنی مجبوریاں بتا رہا تھا،تو اس وقت کالج میں ایک دوست سے حالات حاضرہ پر بحث کرنے کا اتفاق ہوا میرے لہجے میں غصہ پن زیادہ تھی کہ یہ بے غیرت ملک ہے امریکہ کو اڈے دے کر اپنا ملک مسلمانوں کے خلاف استعمال کررہا ہے یہ کیسا اسلامی ملک ہے اور یہ کس طرح کے مسلمان ہیں؟ بھر حال وہ میرا دوست مجھے تسلی دیتے ہوئے بار بار کہتے تھے کہ یہ فوجی بڑے چالاک ہوتے ہیں، یہ ہرگز اڈے نہیں دے سکتے یہ تو بس ان کے ساتھ ٹال مٹول کر رہے ہیں امریکہ کو دھوکہ دے رہے ہیں یہ ہورہاہے وہ ہورہا ہے کچھ نہیں ہوگا تم دیکھنا نا تو امریکہ حملہ کرسکتا ہے اور نا ہی مشرف اڈے دے سکتا ہے … پھر یوں ہوا کہ حملہ ہوگیا تاہم اس بات کی تصدیق نہیں تھی کہ حملہ کہاں سے ہوا کس طرح ہوا کونسا ایئربیس استعمال ہوا وغیرہ، حملوں کا یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا اور لوگ آہستہ آہستہ خاموش تماشائی بنتے گئے البتہ بعض فکرمند طبقوں میں بحث ومباحثہ جاری رہا … ہم اکثر اس موضوع کو چھیڑتے تھے سات آٹھ ساتھیوں میں سے ایک بھی یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھا کہ افغانستان پر حملوں کیلئے پاکستانی سرزمین استعمال ہورہی ہے اور اس کے بدلے وہ ڈالرز وصول کر رہے ہیں پھر کتنے لوگ مشرف نے امریکہ کے ہاتھ بیچ دیے وہ خود اس نے اپنے کتاب میں لکھا ہے … چونکہ ملک پر قابض دیگر حکمران بھی ملک کو دیمک کی طرح کھارہے تھے اس لیے مزید ڈالر کمانے کیلئے اپنے ہی ملک میں بھی لال مسجد کے ساتھ ساتھ مختلف ناموں پر آپریشن شروع کیے اور ڈالر وصول کرتے گئے … پھر یوں ہوا کہ امریکہ نے ڈالرز دینا بند کیا اور ڈومور کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک بار پھر دھمکی دے دی جس سے ان حکمرانوں کے اعترافی بیانات سے ان کے کالے کرتوت کھل کر سامنے آگئے اور ایک عام فہم انسان بھی اصل حقائق سمجھنے لگا… سابق آئی ایس آئی چیف میجر عامر نے ایک انٹرویو میں ان تمام حقائق کا اعتراف کیا جو پہلے صرف طالبان ہی جانتے تھے اب سب کو پتہ چل گیا ہے کہ ملک کا بیڑا کس نے غرق کیا اور کون امریکی ایجنٹ ہیں …. چونکہ پاکستان میں آجکل اقتصادی بحران عروج پر ہے اور آج ایک بار پھر پاکستان کو ایران امریکہ کشیدگی کی شکل میں ڈالرز کمانے کا موقع ہاتھ آیا ہے کہ بالفرض اگر امریکہ ایران پر حملہ کرتا ہے جو کہ کبھی ہونے والا نہیں لیکن اگر ہم فرض کر لیں تو اب ان کی کوشش یہی ہوگی کہ اس موقع سے بھی فائدہ لیا جاسکے اس کا اندازہ پاکستان کے اعلیٰ حکام کے بیانات سے لگایا جاسکتا ہے .پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان کی واضح پالیسی ہے کہ کسی بھی ریاست کے خلاف پاکستانی سرزمین نہ استعمال ہوگی اور نہ ہی پاکستان کسی علاقائی تنازعے میں فریق بنے گا۔ یہ بیان سنتے ہی مجھے نائن الیون والی تقاریر یاد آئے اس وقت بھی صورت حال ایسی ہی تھی. جیونیوز کے پروگرام ”آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ“میں گفتگو کرتے ہوئے مشاہد حسین سید نے کہا کہ ایران امریکہ کشیدگی کے دوران ہم کو دانشمندی سے اپناراستہ نکالناچاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم بہت اہم ملک ہیں اور امریکہ کو ہماری ضرورت ہے ، ہم کوموجودہ صورتحال میں خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہم کو ایسا معاملہ کرناچاہئے کہ ایران کے خلاف بھی استعمال ہونے کاتاثر نہ جائے اور امریکہ کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات برقرار رہیں ۔ امریکہ کے ساتھ تعلق کا مطلب تو سب ہی جانتے ہیں اسلیئے یہاں تکرار کی ضرورت نہیں ہوگی .. سینیٹر رحمن ملک نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت امریکہ و ایران کے درمیان ثالثی کردار ادا کرے۔ محض ’اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں کرنے دیں گے‘ سے پاکستان کی ذمہ داری پوری نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بے شک پاکستان کی ایسی کوششیں اتنی بارآور ثابت نہیں ہوئیں لیکن اب پاکستان کی پوزیشن مضبوط ہے اور ایسی پوزیشن ہے کہ پاکستان ثالثی کروا کر کشیدگی کم کروا سکے۔‘ اس بیان کے بعد بھی اگر کوئی یہ سمجھے کہ پاکستان ثالث بنے گا تو یہ اس کی کم فہمی ہوگی .. سفارتی ماہرین کے مطابق گزشتہ برس بھی پاکستان سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات رواں رکھنے کے لیے کوشش کرتا رہا ہے لیکن کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی۔ اس سے قبل 2016 میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی آرمی چیف کے ہمراہ ایران سعودی عرب کا دورہ کیا،لیکن حالات جوں کے توں ہی رہے۔ 2007 میں سابق صدر و آرمی چیف جنرل مشرف نے بھی خلیجی ممالک کے درمیان ثالثی کو کوشش کی تھی جو کامیاب نہیں ہوئی …. ایران کے ماضی پہ نظر ڈالیں تو غیر ملکی تسلط نظر نہیں آتا۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ ایران کا جغرافیہ ہے۔ عراق اور ایران کے درمیان سلسلہ کوہ ہے۔ ان ہی پہاڑوں پر سارا ایران آباد ہے۔ سمندر سے ان پہاڑوں کے درمیان دو بڑے صحرا، دشت لوت اور دشت کویر، موجود ہیں۔ اس لیے امریکہ ایران پر براہ راست حملہ کرنے کی صورت میں مصیبت میں پھنس سکتا ہے۔ اسی طرح ایران نے ماضی میں امریکہ کی سرزمین پر جتنی بار بھی در اندازی کی، ناکام رہا۔ لے دے کر امریکہ کے اتحادی بچتے ہیں یا خلیج میں امریکی تنصیبات اور اڈے۔ ایران ان پر حملہ بھی کرے گا تو امریکہ کو کچھ خاص نقصان نہیں پہنچے گا۔ بس خطے کا امن برباد ہو گا۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک پچھلے 80، 70 برسوں کی طرح استحکام کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے رہ جائیں گے۔ مجبوراً افغانستان جیسی صورتحال بنے گی اور ایک بار پھر فرنٹ لائن اتحادی کا لقب پاکستان ہی کو مل جائے گی .. کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایران کسی بھی بیان بازی کی وجہ سے خوش فہمی میں نہ رہے ہم پہلے بھی سب کچھ بیچ چکے ہیں اب بھی کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے ہماری سرزمیں کسی بھی ملک کے خلاف استعمال ہوسکتی ہے سوائے ان کے جو پیسہ دیتے ہیں … کالم حرف حقیقت از مکرم خراسانی
Item Preview
36 Views
IN COLLECTIONS
Super Serialization Hold and VerifyUploaded by sahabhakim9 on